کّہ، جسے انگریزی میں میکّا کہا جاتا ہے، دنیا کا مقدس ترین اور معزز ترین شہر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی الہامی کتابیں نازل کیں، جس سے مکّہ اسلامی عبادات کا مرکز اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار پایا۔ اس شہر کی تقدس اور تاریخی اہمیت اس کی قدیم تاریخ اور مذہبی نشانیوں میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔

مکّہ کی تاریخ کا ایک جائزہ

مکّہ کی تاریخ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔ مکّہ کو ایک مقدس شہر میں تبدیل کرنے کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں اٹھا کر کیا۔ ابتدائی طور پر مکّہ آدم کی اولاد کی ایک چھوٹی بستی تھی، لیکن حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں ایک تباہ کن سیلاب نے اسے ایک بنجر وادی میں تبدیل کر دیا، جو پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی۔

زمزم کے کنویں کی دریافت اور کعبہ کی بنیادوں کی تعمیر کے ساتھ مکّہ کی دوبارہ آبادکاری کا آغاز ہوا۔ قبیلہ جُرہُم نے اس مقدس مقام کی دیکھ بھال اور انتظام میں اہم کردار ادا کیا۔

مکّہ کے مقدس مقامات

  1. مسجد الحرام: سب سے مقدس مسجد
    مکّہ کے قلب میں مسجد الحرام واقع ہے، جو اسلام کی سب سے مقدس مسجد ہے۔ اس میں کعبہ ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ اور حج و عمرہ جیسے اسلامی مناسک کا مرکز ہے۔ مسجد الحرام کی اہمیت اسلام کے ظہور کے ساتھ مزید بڑھ گئی، جس نے اسے مسلمانوں کے لیے اتحاد اور عقیدت کی علامت بنا دیا۔
  2. کعبہ: اسلام کا روحانی مرکز
    مسجد الحرام کے اندر واقع کعبہ کو اللہ کا گھر مانا جاتا ہے۔ اس کی تقدس بے مثال ہے اور اسے مسلمان بڑی عقیدت سے دیکھتے ہیں۔ اس کے ڈھانچے میں تین لکڑی کے ستون ہیں جو اس کی چھت کو سہارا دیتے ہیں، جنہیں پہلی بار حضرت عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) نے نصب کیا تھا۔ یہ ستون 1350 سال سے زائد عرصے سے قائم ہیں۔کعبہ کے اندرونی حصے میں سنگ مرمر کا فرش ہے اور دیواریں رنگین سنگ مرمر کے پتھروں سے مزین ہیں۔ ایک ریشمی غلاف، جسے کسوہ کہا جاتا ہے، اندرونی حصے کو ڈھانپتا ہے، جس پر شہادت اور اللہ کے نام لکھے ہوتے ہیں۔

مکّہ کے معماری اور تاریخی خصوصیات

  1. حجر اسماعیل
    کعبہ کی شمالی دیوار، جسے حجر اسماعیل کہا جاتا ہے، اس علاقے کی نشاندہی کرتی ہے جو قریش قبیلے کی تعمیر نو کے دوران چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ حصہ، جو تاریخی طور پر حجر اسماعیل کے نام سے جانا جاتا ہے، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی اصل بنیاد کا حصہ ہونے کے ناتے اہمیت رکھتا ہے۔
  2. کعبہ کا دروازہ
    کعبہ کا دروازہ، جو اس کے مشرقی جانب واقع ہے، مختلف ادوار میں تجدید کیا گیا۔ تازہ ترین دروازہ، جو خالص سونے سے بنا ہے، شاہ خالد بن عبدالعزیز کے حکم پر بنایا گیا تھا۔ یہ دروازہ زمین سے بلند ہے، جس میں داخلے کے لیے سیڑھیاں استعمال کی جاتی ہیں، جو کعبہ کے بلند مقام کی علامت ہے۔
  3. زمزم کنواں
    مسجد الحرام کے اندر واقع زمزم کا کنواں کعبہ سے 21 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ کنواں اس جگہ دریافت ہوا جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں نے زمین کو چھوا تھا، جب ان کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں تھیں۔ آج کل، اس کنویں کی انتہائی نگہداشت کے ساتھ دیکھ بھال کی جاتی ہے، جس میں سعودی حکومت جدید فلٹریشن اور تحفظ کے نظام نافذ کرتی ہے۔

ترقیاتی اور تحفظاتی کوششیں

تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں، بشمول سعودی بادشاہوں نے ان مقدس مقامات کے تحفظ اور توسیع میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں کعبہ کے اندرونی اور بیرونی حصوں کی وسیع پیمانے پر تزئین و آرائش کی گئی، جو 1040 ہجری کے بعد سے سب سے بڑی مرمت تھی۔ اسی طرح، شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز کے 2010 میں شروع کیے گئے زمزم کنواں کے منصوبے کا مقصد کنویں کی پاکیزگی کو برقرار رکھنا تھا۔

  1. توسیعی منصوبے
    شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں مکّہ میں بے مثال توسیعی منصوبے دیکھے گئے ہیں۔ ان میں مسجد الحرام کے ارد گرد کے علاقے کو 1.85 ملین نمازیوں کی گنجائش کے لیے بڑا کرنا، پلوں، سرنگوں، اسپتالوں کی تعمیر، اور مطاف کے علاقے کو وسیع کرنا شامل ہے تاکہ ایک گھنٹے میں 107,000 زائرین طواف کر سکیں۔

مکّہ ایک بے مثال روحانی اور تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ اس کے مقدس مقامات، جیسے کعبہ، زمزم کا کنواں، اور مسجد الحرام، نہ صرف ایمان کی علامت ہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس شہر کی دیرینہ میراث کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ ان مقدس مقامات کو محفوظ رکھنے اور ان کی توسیع کے لیے سعودی قیادت کی مستقل کوششیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ مکّہ آنے والی نسلوں کے لیے قابل رسائی اور معزز رہے۔

Share.
Leave A Reply

Exit mobile version